Hasan Abidi

حسن عابدی

حسن عابدی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا

    پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا جاناں ہم اپنی جاں سے گزر بھی گئے تو کیا جینا متاع خویش نہ مرنا عطائے غیر جیتے رہے تو کیا ہے جو مر بھی گئے تو کیا دل خوں ہے ایک ترک محبت کے داغ سے رسوائیوں کے داغ اتر بھی گئے تو کیا مٹی میں اعتبار نمو ڈھونڈھتا ہوں میں بادل ہوا کے ساتھ بکھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں

    پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے درمیاں کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح در بہ در پھرتے رہے پیلی رتوں کے درمیاں اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ پارساؤں دیوتاؤں ...

    مزید پڑھیے

    صبح آنکھ کھلتی ہے ایک دن نکلتا ہے

    صبح آنکھ کھلتی ہے ایک دن نکلتا ہے پھر یہ ایک دن برسوں ساتھ ساتھ چلتا ہے کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے ورنہ ایسی باتوں پر کون ہاتھ ملتا ہے قافلے تو صحرا میں تھک کے سو بھی جاتے ہیں چاند بادلوں کے ساتھ ساری رات چلتا ہے دل چراغ محفل ہے لیکن اس کے آنے تک بار بار بجھتا ہے بار ...

    مزید پڑھیے

    تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے

    تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے نیشتر اور سہی کار دگر اور سہی دل صد چاک اگر اذن رفو دیتا ہے تاب فریاد بھی دے لذت بیداد بھی دے دینے والے جو مجھے سوز گلو دیتا ہے ہم تو برباد ہوئے برگ خزاں کی صورت شاخ گل کون تجھے ذوق نمو دیتا ہے منصفو ہاتھ سے ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا

    سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا اب اپنے گھر کا راستہ بھی کھو گیا پھر اس کے پیرہن کی بو نہ مل سکی وہ میرے خوں میں آستیں ڈبو گیا وہ نیشتر جو اس کے ہاتھ میں نہ تھا گیا تو میری سانس میں پرو گیا اب آنسوؤں کی فصل کاٹتے رہو جدائیوں کے بیج وہ تو بو گیا نہ جانے کس نگر آج شام ہو سحر ہوئی تو جی ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    میرے بستے میں کیا ہے

    اسکول کا لڑکا ہوں میں ننھا سا بنجارہ ہوں میں جو چیز ہے وہ خاص ہے بستے میں میرے پاس ہے کچھ ٹافیاں کچھ گولیاں کچھ بیر کچھ نمکولیاں کڑوی کسیلی چھالیہ کچھ بچ گئیں کچھ کھا لیا پرکار پنسل اور ربر رنگین کاغذ اور کلر یہ مور کے پر دیکھیے لعل و جواہر دیکھیے ماچس کے لیبل دیکھیے کاغذ کی بلبل ...

    مزید پڑھیے

    ایک جھوٹی کہانی

    جب دریا میں آگ لگی مچھلی نے اک جست لگائی جا بیٹھی دیوار پر کچھوے کو اڑنا آتا تھا اڑ کے بیٹھا تار پر مینڈک کو آگے جانا تھا وہ تو بھاگا کار پر جب دریا میں آگ لگی تار پہ بلی ناچ رہی تھی کچھوے سے یہ بولی آؤ بادل میں چھپ جائیں کھیلیں آنکھ‌ مچولی مچھلی بیٹھی اونگھ رہی تھی وہ بھی پیچھے ہو ...

    مزید پڑھیے

    حبیب جالبؔ

    وہ ایک لمحہ جو سچ بولنے سے ڈرتا ہے جو ظلم سہتا ہے جبر اختیار کرتا ہے وہ لمحہ موت کی وادی میں جا اترتا ہے مگر جو بار صداقت اٹھا کے زندہ ہے ستم گروں کے ستم آزما کے زندہ ہے وہ لمحہ اپنے لہو میں نہا کے زندہ ہے وہ ایک لمحہ کہ تاریخ جس سے روشن ہے متاع خاک اسی کے لہو کا خرمن ہے دوام فصل ...

    مزید پڑھیے