شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں
شہر نا پرساں میں کچھ اپنا پتہ ملتا نہیں بام و در روشن ہیں لیکن راستہ ملتا نہیں فصل گل ایسی کہ ارزاں ہو گئے کاغذ کے پھول اب کوئی گل پیرہن زریں قبا ملتا نہیں آشنا چہروں سے رنگ آشنائی اڑ گیا ہم زباں اب خشک پتوں کے سوا ملتا نہیں ایک سناٹا ہے شبنم سے شعاع نور تک اب کوئی آنچل پس موج ...