درخت
وہ ایک درخت کھڑا ہی رہتا تھا ہمیشہ ہمیشہ سے کتنی بار بدلے موسم کتنی کونپلیں پھوٹی اور جانے کتنی بار سارے پتے سوکھ کر جھڑ گئے اسے ایک دم ننگا کر کھڑا رہا وہ پھر بھی گھونسلے بنتے رہے انڈے کچھ پھوٹے کچھ سانپوں نے ڈس لیے اور جو پنپ سکے اس کی چھایا میں وہ جس دن اونچا اڑ سکے اڑ ...