عافیت کی تلاش میں
کراچی ایک زخمی خانماں برباد کچھوا جس کے سب بازو تھکن سے بے بسی سے شل ہوئے ہیں جہاں بھر کے دکھوں کا بوجھ اٹھائے بہت ہلکان خشکی پر پڑا ہے اب اپنے آنسوؤں سے زخم بھرنا چاہتا ہے جو انڈے بچ گئے ہیں وہ سنبھالے سمندر میں اترنا چاہتا ہے
کراچی ایک زخمی خانماں برباد کچھوا جس کے سب بازو تھکن سے بے بسی سے شل ہوئے ہیں جہاں بھر کے دکھوں کا بوجھ اٹھائے بہت ہلکان خشکی پر پڑا ہے اب اپنے آنسوؤں سے زخم بھرنا چاہتا ہے جو انڈے بچ گئے ہیں وہ سنبھالے سمندر میں اترنا چاہتا ہے
تمہیں بھی معلوم ہے مجھے بھی کہ پاس میرے تو کچھ نہیں ہے جو زر پرستی کے اس جہاں میں مجھے بھی کچھ معتبر بنا دے نہ قیمتی ہے لباس میرا نہ مال و دولت زر و جواہر کہ جن میں تم کو شریک کر لوں مری تو دولت عجیب سی ہے مری متاع جہاں میں تم کو بہت سی رسوائیاں ملیں گی وفا کے آنسو گماں کی ...
زمینیں چاہئیں لمبا تعلق کاشت کرنے کو کہیں رہنے کو بسنے کو مگر میں تو تمہاری زندگی کے گرم موسم میں ہوا کا ایک جھونکا تھا ہوا بہتی ہوئی آتی ہے اپنے پانیوں میں جسم و جاں کے حبس کو غرقاب کرتی ہے ہوا پر گھر نہیں بنتے ہوا سے سانس آتی ہے ہوا سیراب کرتی ہے
مجھے وہ خوف تھا کہ جس سے کوئی بھی بچا نہیں وہی تو اک سوال تھا کہ جس سوال کا جواب آج تک کسی کو بھی ملا نہیں بس اس کے جسم و جاں کے بے کنار پانیوں میں پیر نے کا بھوت سر پہ یوں سوار تھا اور ایسا انتظار تھا کہ ایک ایک پل جو کٹ رہا تھا بار تھا یہ سب جہان تھا فضول گرد تھا غبار تھا
بسیں چلتی رہیں گی اپنے روٹوں پر ٹریلر یوں ہی بندر گاہ سے سامان لائیں گے جہازوں اور ٹرینوں کے شیڈیول اور ٹائم ٹیبل میں نہ کوئی فرق آئے گا نہ کوئی مسئلہ ہوگا دکانوں کارخانوں دفتروں میں حاضری معمول کی ہوگی ڈبل روٹی بنے گی اور تنوروں میں خمیری روغنی سادی سبھی اقسام کی روٹی لگے ...
یہ ساری دنیا سوالیہ ہے ہر ایک چہرہ سوال اندر سوال ہے اور ہر ایک منظر سوال بن کر جواب کا منتظر کھڑا ہے اگر کوئی سامنے بھی آئے اور آ کے اک بات کا بھی ہم کو جواب دے دے تو در حقیقت جواب میں بھی نہ جانے کتنے سوال ہوں گے ہزار ہا نت نئے مسائل ہمیں ملیں گے کہ آج تک تو یہی ہوا ہے جواب ہی سے ...
استعارہ اداس راتوں کی تیرگی میں اگر کوئی نغمہ ریز طائر خود اپنی مرضی سے راہ بھولا ہوا پرندہ کہ جس کا ننھا سا دل محبت کے سارے جذبوں سے آشنا ہو کہ جس کے پر دکھ چکے ہوں لیکن وہ اڑ رہا ہو نئی فضاؤں کو ڈھونڈھتا ہو میں اس کو آواز دے رہا ہوں وہی تو ہے میرا استعارہ میں چاہتا ہوں کہ ساتھ ...
چائے کی میز سے لگ کر میں کھڑا تھا خاموش وہ سموسوں سے بھری پلیٹ لیے پاس آئی اور پوچھا بہت آہستہ سے ''ناک کی کیل کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں'' عمر ہوگی کوئی چوبیس برس ڈیڑھ دو سال کا بیٹا تھا بہت پیارا سا جو کبھی گود میں ہوتا تو کبھی بھاگ کے آنگن میں چلا جاتا تھا ناک میں بائیں طرف کیل ...
تساہل کی چادر لپیٹے ہوئے قصہ خوانی اک شام تھی ہم وہاں اپنی دن بھر کی اس جان لیوا تھکن سے نبرد آزما خوب قہووں پہ قہوے کے پیالے لنڈھاتے رہے اور اپنے بلند بانگ دعووں سے اور قہقہوں سے کہیں گھونسلوں میں چھپے تھک کے سوئے ہوئے نیم جاں طائروں کو جگاتے رہے اور گزرے زمانے کے پیروں فقیروں ...
سب ہی تعبیر کے تمنائی مجھ کو بس خواب دیکھنے کی ہوس خواب بھی جو ذرا اچھوتے ہوں اور کسی نے کبھی نہ دیکھے ہوں