استعارہ

استعارہ
اداس راتوں کی تیرگی میں
اگر کوئی نغمہ ریز طائر
خود اپنی مرضی سے راہ بھولا ہوا پرندہ
کہ جس کا ننھا سا دل
محبت کے سارے جذبوں سے آشنا ہو
کہ جس کے پر دکھ چکے ہوں لیکن
وہ اڑ رہا ہو
نئی فضاؤں کو ڈھونڈھتا ہو
میں اس کو آواز دے رہا ہوں
وہی تو ہے میرا استعارہ
میں چاہتا ہوں کہ ساتھ میرے
وہ گیت گائے
نئی رتوں کے محبتوں کے
زمیں کو خوش رنگ کرنے والی
تمام گل ریز ساعتوں کے