ہمدم کاشمیری کی غزل

    ہم ڈھونڈتے پھرتے رہے تصویر ہوا کی

    ہم ڈھونڈتے پھرتے رہے تصویر ہوا کی پانی پہ تھرکتی رہی تحریر ہوا کی سنتے ہیں سمجھتے نہیں مطلب نہ معانی ہوتی ہے درختوں سے جو تقریر ہوا کی احساس نہیں ہے جنہیں بے بال و پری کا کرتے ہیں ہوا میں وہی تعمیر ہوا کی دیکھا ہی نہیں اس کو کسی آنکھ نے اب تک کھینچی ہے مصور نے جو تصویر ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کسی قاتل سے نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے

    کسی قاتل سے نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے آج کیا بات ہے دربار سے ڈر لگتا ہے خود کو اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوں کسی گوشے میں ہر طرف شورش بسیار سے ڈر لگتا ہے سوچتا ہوں کہ کہاں ٹیک لگا کر بیٹھوں مجھ کو خود اپنی ہی دیوار سے ڈر لگتا ہے ٹوٹ جائے نہ کسی آن تسلسل اس کا کیوں مجھے سانس کی تکرار سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    عکس کیا دیدۂ تر میں دیکھا

    عکس کیا دیدۂ تر میں دیکھا ہم نے دریا کو بھنور میں دیکھا سر منزل کوئی منزل نہ ملی اک سفر اور سفر میں دیکھا نظر آیا کبھی بازار میں گھر کبھی رستہ کوئی گھر میں دیکھا سرخ رو جنگ سے لوٹ آیا تھا خوں میں لت پت جسے گھر میں دیکھا جانے کب آ کے یہاں بیٹھے تھے اپنا سایا بھی شجر میں ...

    مزید پڑھیے

    یقین کیسے کروں گا گماں میں رہتا ہوں

    یقین کیسے کروں گا گماں میں رہتا ہوں چراغ ہوں کسی اندھے مکاں میں رہتا ہوں چہار سمت اجالا ہے میرے ہونے سے میں ہر طرف ہوں مگر درمیاں میں رہتا ہوں مجھے تلاش کرو مجھ سے گفتگو کر لو میں اپنے حرف میں اپنے بیاں میں رہتا ہوں حقیر سا مرا کردار ہے کہانی میں مثال گرد کہیں کارواں میں رہتا ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے ظاہر کیا سخن میں بہت

    ہم نے ظاہر کیا سخن میں بہت شور باقی ہے کیوں بدن میں بہت کون آیا ہے اس خرابے میں روشنی ہے کہیں بدن میں بہت کوئی آواز کیوں نہیں آتی ہو کا عالم ہے کیوں بدن میں بہت پھڑپھڑانے کی آ رہی ہے صدا کون بے چین ہے بدن میں بہت ہے زمیں سے زمین تک پرواز خاک اٹھتی ہے پیرہن میں بہت رنگ و بو ہی ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سوچو تو میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے

    ذرا سوچو تو میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے بدن ٹوٹا ہوا تھا پارا پارا کیوں ہوا ہے خود اپنی موج سے بیگانہ دریا کیوں ہوا ہے جو ہونا ہی نہیں تھا آج ایسا کیوں ہوا ہے سروں پر آسماں ڈوبا ہوا ہے بادلوں میں دکھوں کی جھیل کا پانی بھی گہرا کیوں ہوا ہے خدایا عاجزی سے میں نے مانگا کیا ملا ...

    مزید پڑھیے

    وہم کوئی گماں میں تھا ہی نہیں

    وہم کوئی گماں میں تھا ہی نہیں نقش اپنا نشاں میں تھا ہی نہیں مجھ سے منسوب ہو گیا کیوں کر وہ جو میرے بیاں میں تھا ہی نہیں لوگ کیسے مرا یقیں کرتے جھوٹ میرے بیاں میں تھا ہی نہیں چور آیا گیا بھی خالی ہاتھ میں تو اپنے مکاں میں تھا ہی نہیں بس پرانی گھسی پٹی باتیں رنگ تازہ بیاں میں تھا ...

    مزید پڑھیے

    عشق کے نام پہ دائم رہے زنداں آباد

    عشق کے نام پہ دائم رہے زنداں آباد چاک تازہ سے رہے میرا گریباں آباد قیس کے بعد کسی نے کبھی پوچھا ہی نہیں ہم کو ہی کرنا پڑا پھر سے بیاباں آباد تختیاں لٹکی ہوئی نام کی دروازوں پر ہم نے دیکھے ہیں یہاں کتنے ہی زنداں آباد ہم نے رکھی نہ کبھی اپنے گھروندوں پہ نظر ہم نے دیکھے ہیں سدا ...

    مزید پڑھیے

    کام آساں ہے مگر دیکھیے دشوار بھی ہے

    کام آساں ہے مگر دیکھیے دشوار بھی ہے آگے دروازے کے رکھی ہوئی دیوار بھی ہے دینے والے سے مجھے کوئی شکایت کیوں ہے راہ میں دھوپ بھی ہے سایۂ اشجار بھی ہے قتل کر کے جو مجھے سائے میں پھینک آیا ہے لوگ کہتے ہیں وہی میرا طرفدار بھی ہے تجھ کو بس اپنی ہی تصویر نظر آتی ہے آئنہ میں کہیں حیرت ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ خالی ہے کوئی کنکر اٹھا

    ہاتھ خالی ہے کوئی کنکر اٹھا آنکھ سے ٹھہرا ہوا منظر اٹھا خامشی کا طنطنہ ہے ہر طرف شور یہ کیسا مرے اندر اٹھا کیا نہیں رکھا تھا میرے سامنے پھر بھی سجدے سے نہ میرا سر اٹھا اب بھی مالا مال ہے میرا ہنر سامنے سے میرے سیم و زر اٹھا میں بہت نادم ہوں اپنے کام سے میری مٹی سے نیا پیکر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3