کسی قاتل سے نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے

کسی قاتل سے نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے
آج کیا بات ہے دربار سے ڈر لگتا ہے


خود کو اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوں کسی گوشے میں
ہر طرف شورش بسیار سے ڈر لگتا ہے


سوچتا ہوں کہ کہاں ٹیک لگا کر بیٹھوں
مجھ کو خود اپنی ہی دیوار سے ڈر لگتا ہے


ٹوٹ جائے نہ کسی آن تسلسل اس کا
کیوں مجھے سانس کی تکرار سے ڈر لگتا ہے


میں نے قاتل کا ادا رول کیا ہے ہمدمؔ
کیوں مجھے اپنے ہی کردار سے ڈر لگتا ہے