ہم نے ظاہر کیا سخن میں بہت
ہم نے ظاہر کیا سخن میں بہت
شور باقی ہے کیوں بدن میں بہت
کون آیا ہے اس خرابے میں
روشنی ہے کہیں بدن میں بہت
کوئی آواز کیوں نہیں آتی
ہو کا عالم ہے کیوں بدن میں بہت
پھڑپھڑانے کی آ رہی ہے صدا
کون بے چین ہے بدن میں بہت
ہے زمیں سے زمین تک پرواز
خاک اٹھتی ہے پیرہن میں بہت
رنگ و بو ہی نہیں فقط آباد
خون اپنا بھی ہے چمن میں بہت
مصلحت ہے کہ بزدلی ہمدمؔ
خامشی آ گئی سخن میں بہت