خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی
خوشبوؤں کی دشت سے ہمسائیگی تڑپائے گی جس کو بھی حاصل ہوئی یہ آگہی تڑپائے گی روشنی کو گنگ ہوتے جس نے دیکھا ہو کبھی کس حوالے سے اسے تیرہ شبی تڑپائے گی کاڑھتا تھا میں ہی سنگ سخت پر ریشم سے پھول کیا خبر تھی یہ نظر شائستگی تڑپائے گی خواب تھے پایاب اس کا دکھ نہیں کب تھی خبر مجھ کو ...