Hakeem Manzoor

حکیم منظور

  • 1937

حکیم منظور کی غزل

    سارے معمولات میں اک تازہ گردش چاہئے

    سارے معمولات میں اک تازہ گردش چاہئے نم زمیں پر خشک موسم کی نوازش چاہئے شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی زندہ رہنا ہو تو قاتل کی سفارش چاہئے میری مشکل بھاگتے لمحوں کو پکڑوں کس طرح ضد اسے ان دیکھے خوابوں کی نمائش چاہئے بھیجتا میں کس کو صبحوں کی کنواری روشنی اس کو بوڑھی رات ...

    مزید پڑھیے

    سفر ہی کوئی رہے گا نہ فاصلہ کوئی

    سفر ہی کوئی رہے گا نہ فاصلہ کوئی یہ اک خیال ہے اس پر بھی تبصرہ کوئی رقم ہوا ہوں یقین و قیاس دونوں میں کرے تو کیسے کرے میرا تجزیہ کوئی وہ دست سنگ ہے میں آئینہ گرفتہ ہوں نہ ہو سکے گا کبھی ہم میں تصفیہ کوئی زمیں پہ آئے نہ آئے یہ وہم ہے سب کو خلا کی گود میں پلتا ہے حادثہ کوئی میں اک ...

    مزید پڑھیے

    آگ جو باہر ہے پہنچے گی اندر بھی

    آگ جو باہر ہے پہنچے گی اندر بھی سائے جل جائیں گے اور پھر پیکر بھی تیری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں تیرے ہاتھوں میں دیکھا ہے خنجر بھی پارکھ ہے تو مجھ کو پرکھ ہشیاری سے میں اک گوہر بھی ہوں میں اک پتھر بھی خوابوں میں بھی رہتا ہوں بے چین بہت چین نہیں ملتا ہے مجھ کو سو کر بھی کب ...

    مزید پڑھیے

    اذیتوں کو کسی طرح کم نہ کر پایا

    اذیتوں کو کسی طرح کم نہ کر پایا میں اپنے ہاتھ ابھی تک قلم نہ کر پایا حوالے لاکھ دلیل ایک بھی نہ دے شاید نظر میں کیوں کسی منظر کو ضم نہ کر پایا ہے بے تراش ابھی دست ذہن میں اک نقش کہ اس کے رنگ کو میں ہم قلم نہ کر پایا ہے شرم تشنہ لبی اس کی جس سے بجھ جاتی میں اتنا خون جگر کیوں بہم نہ ...

    مزید پڑھیے

    عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے

    عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے یہ کس نے اس سمندر کا سمندر نام رکھا ہے وہی اک دن شہادت دے گا میری بے گناہی کی وہ جس نے قتل گل کا میرے سر الزام رکھا ہے میں تم سے پوچھتا ہوں جھیل ڈل کی بے زباں موجو تہہ دامن چھپا کر تم نے کیا پیغام رکھا ہے کبھی بادل میرے آنگن اترتا پوچھتا میں ...

    مزید پڑھیے

    ڈھل گیا جسم میں آئینے میں پتھر میں کبھی

    ڈھل گیا جسم میں آئینے میں پتھر میں کبھی چھپ سکا میں نہ کسی رنگ کے پیکر میں کبھی میں یہی نقطۂ موہوم رہوں گا نہ سدا میں جھلک اٹھوں گا آخر کسی منظر میں کبھی وہ سمندر کی بڑائی سے ہے مرعوب کہ وہ تشنہ لب بن کے رہا ہے نہ سمندر میں کبھی تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی تو ذرا ...

    مزید پڑھیے

    بھیجتا ہوں ہر روز میں جس کو خواب کوئی ان دیکھا سا

    بھیجتا ہوں ہر روز میں جس کو خواب کوئی ان دیکھا سا اس کی آنکھیں ساری خوشبو اس کا بدن آئینا سا اس نے بس اتنا ہی پوچھا سبز چنار اب کتنے ہیں سر سے پا تک لرز اٹھا میں دل پہ گرا اک شعلہ سا چٹانوں کے سینے پر بھی کھل کر جو مسکاتا ہے سر مستی کا سرچشمہ ہے وہ اک پودا ننھا سا لوگو لب کھولو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی پیام اب نہ پیمبر ہی آئے گا

    کوئی پیام اب نہ پیمبر ہی آئے گا وہ شب ہے آسمان سے پتھر ہی آئے گا جا کر وہ اپنے شہر سے اس کو یقین ہے پانی پہ کوئی نقش بنا کر ہی آئے گا اتنا بدل گیا ہوں کہ پہچاننے مجھے آئے گا وہ تو خود سے گزر کر ہی آئے گا بے در کا اک مکان رلاتا ہے رات دن اس کا بھی دل جو ہوگا کبھی بھر ہی آئے گا کیا ...

    مزید پڑھیے

    ہے اضطراب ہر اک رنگ کو بکھرنے کا

    ہے اضطراب ہر اک رنگ کو بکھرنے کا کہ آفتاب نہیں رات بھر ٹھہرنے کا مجسمے کی طرح موسموں کو سہتا ہے وہ منتظر ہے کوئی حادثہ گزرنے کا لٹکتے سوکھتے یہ نقش یوں ہی روئیں گے گزر گیا ہے جو موسم تھا رنگ بھرنے کا وہ آئنے سے اگر ہو گیا ہے بے پروا جواز کیا ہے اسے پھر کسی سے ڈرنے کا گرے گی کل ...

    مزید پڑھیے

    خود اپنے آپ سے ملنے کا میں اپنا ارادہ ہوں

    خود اپنے آپ سے ملنے کا میں اپنا ارادہ ہوں میں ہر موسم کو سہہ کر بھی ابھی تک ایستادہ ہوں ازل سے ماورا رنگوں سے ہوں یہ میرا دعویٰ ہے اساس رنگ پر جانچو نہ مجھ کو نقش سادہ ہوں ترا سایہ ہے آئینہ چمکتے آفتابوں کا میں اپنے جسم میں بے پیکری کا اک لبادہ ہوں مجھے حیرت، میں اک نقطے کی صورت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3