ٹوٹ کر بکھرے نہ سورج بھی ہے مجھ کو ڈر بہت

ٹوٹ کر بکھرے نہ سورج بھی ہے مجھ کو ڈر بہت
حبس اندر سے زیادہ آج ہے باہر بہت


مجھ کو بھی آتا ہے فن صاحب نوازی کا مگر
کیا کروں میری انا مجھ سے بھی ہے خود سر بہت


غم زدہ کرتی ہے مجھ کو بس دروں بینی مری
یوں تو میں بھی دیکھتا ہوں خوشنما منظر بہت


اپنی آنکھیں گھر پہ رکھ کر بھی تماشائی ہیں لوگ
اور ان کی اس ادا پر خوش ہیں بازی گر بہت


اب تراشا ہی نہیں جاتا کبھی پیکر کوئی
آج بھی آذر بہت ہیں آج بھی پتھر بہت


میں کسی کی بے گھری کا کس لئے ماتم کروں
زندگی خود آج لگتی ہے مجھے بے گھر بہت


گل پرستی پر نہ کر اصرار اے منظورؔ تو
دیکھ ہر اک موڑ پر ہیں شہر میں پتھر بہت