ایک وحدت تھی آپ ہی بکھری

ایک وحدت تھی آپ ہی بکھری
جانے کس غم میں روشنی بکھری


اب سمیٹو گے کس طرح اس کو
لفظ در لفظ خامشی بکھری


آئنہ خانۂ تخیل میں
ایک لمحے میں اک صدی بکھری


قید تھی روح کی خموشی میں
جسم میں ڈھل کے زندگی بکھری


کرب اظہار سے نہ گزری بات
لب پہ آنے سے پہلے ہی بکھری