Hakeem Manzoor

حکیم منظور

  • 1937

حکیم منظور کی غزل

    وہ جو اب تک لمس ہے اس لمس کا پیکر بنے

    وہ جو اب تک لمس ہے اس لمس کا پیکر بنے میری خواہش بھی عجب ہے آئنہ پتھر بنے اک حصار رنگ میں بس سوچتا رہتا ہوں میں کس طرح آندھی ہوا کی زد پہ کوئی گھر بنے راستے پاؤں بنیں تو کیسے طے ہوں راستے نیند کیسے آئے گی جب جسم ہی بستر بنے خوں بہا کس سے طلب ہو کس کو قاتل مانیے آپ اپنی سوچ ہی جب ...

    مزید پڑھیے

    کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے

    کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے ذہن پر اس کو اتارا دل پہ لکھا ہے اسے ان دنوں اس شہر میں اک فصل خوں کا رقص ہے ہم بہت بے بس ہوئے ہیں، میں نے لکھا ہے اسے دھوپ نے ہنس کر کہا دیکھا تجھے پگھلا دیا برف کیا کہتی نفاست نے ڈبویا ہے اسے باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی اب کہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    بیاباں زاد کوئی کیا کہے خود بے مکاں ہے

    بیاباں زاد کوئی کیا کہے خود بے مکاں ہے سمندر اے سمندر تیرا اپنا گھر کہاں ہے وفا کا عہد کیا باندھوں ابھی اے دست خوشبو ابھی بادل حنا پا ہے ابھی سورج جواں ہے عجب افسوں صفت سارا نہ چھپ کر ہے نہ ظاہر جزیرہ ایسا سویا ہے وہ دریا سا رواں ہے ہوا ہے منحرف خود اپنی ہی تحریر سے کیوں حقیقت ...

    مزید پڑھیے

    بے سود ایک سلسلۂ امتحاں نہ کھول

    بے سود ایک سلسلۂ امتحاں نہ کھول سب دیکھ دیکھتا ہی چلا جا زباں نہ کھول اندر کا ہی نہ ہو ذرا باہر بھی دیکھ لے دل خون ہے تو آنکھ پہ خونیں سماں نہ کھول اک گرد چھائے گی ترے مومی دماغ پر تھمنے دے آندھیوں کو ابھی کھڑکیاں نہ کھول چھپ جائے گا کہاں ترے حصے کا آفتاب اے سایہ گرد سر پہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ کر مجھ کو کہیں پھر اس نے کچھ سوچا نہ ہو

    چھوڑ کر مجھ کو کہیں پھر اس نے کچھ سوچا نہ ہو میں ذرا دیکھوں وہ اگلے موڑ پر ٹھہرا نہ ہو میں بھی اک پتھر لیے تھا بزدلوں کی بھیڑ میں اور اب یہ ڈر ہے اس نے مجھ کو پہچانا نہ ہو ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو اس کو الفاظ و معانی کا تصادم کھا ...

    مزید پڑھیے

    میرے سامنے میرے گھر کا پورا نقشہ بکھرا ہے

    میرے سامنے میرے گھر کا پورا نقشہ بکھرا ہے کاش کوئی ایسا ہوتا جو دیکھے کیا کیا بکھرا ہے میں نے چاہا بیتے برسوں کو بھی مٹھی میں بھر لوں اس کوشش میں میرے آج کا لمحہ لمحہ بکھرا ہے پہلے اس کے سائے کے رسیا لوگ تھے اب یہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی پیڑ ہے جس کا پتا پتا بکھرا ہے شاید ایسے ہی بے ...

    مزید پڑھیے

    آگے پیچھے اس کا اپنا سایہ لہراتا رہا

    آگے پیچھے اس کا اپنا سایہ لہراتا رہا خوف سے اس شخص کا چہرہ سدا پیلا رہا صبح کو دیکھا تو وہ مجھ سے تھا بالکل اجنبی رات بھر جو جسم کے اندر مجھے تکتا رہا کیسا دیوانہ تھا سب کچھ جان کر انجان تھا ہر کسی سے وہ گلے ملتا رہا روتا رہا یہ خطا میری تھی تجھ کو میں نے پہچانا نہیں آئینے میں ...

    مزید پڑھیے

    ہو آنکھ اگر زندہ گزرتی ہے نہ کیا کیا

    ہو آنکھ اگر زندہ گزرتی ہے نہ کیا کیا یوں آب میں بجھتے ہوئے شعلے کی صدا کیا اے تو کہ یقیں ہے تجھے شیشے کے بدن پر احساس کی دستک پر کبھی کان دھرا کیا دیوار تہی نقش ہر اک رنگ سے مایوس کاغذ کے لیے موئے قلم سنگ بچا کیا محفوظ ہمیں ریگ حصاروں میں ہوئے تھے کیا ورنہ سمندر کا گزر موج ہوا ...

    مزید پڑھیے

    پھول ہو کر پھول کو کیا چاہنا

    پھول ہو کر پھول کو کیا چاہنا جب یہ بے آنگن تھا جب تھا چاہنا زخم سارے ہی ہیں اپنے جسم زاد کس سبب ان کا تماشا چاہنا پھر سے ہو تجدید خوشبو سوچئے چاہنا اور وہ بھی اپنا چاہنا ایک مشکل رازداری چاہئے ایک مشکل چاہتوں کا چاہنا دستگیری اے نم آنکھوں والی صبح چاہنا کیا چاہنا کیا ...

    مزید پڑھیے

    منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے

    منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے منتظر یہ آئینہ کیا جانے کس منظر کا ہے ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے وہ کسی فرہنگ کا قیدی نہ اب تک ہو سکا وہ شکستہ لفظ میری روح کے اندر کا ہے ہر کوئی ہونے لگا ہے دن کو خوابوں کا اسیر خوف ہر اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3