ہو آنکھ اگر زندہ گزرتی ہے نہ کیا کیا
ہو آنکھ اگر زندہ گزرتی ہے نہ کیا کیا
یوں آب میں بجھتے ہوئے شعلے کی صدا کیا
اے تو کہ یقیں ہے تجھے شیشے کے بدن پر
احساس کی دستک پر کبھی کان دھرا کیا
دیوار تہی نقش ہر اک رنگ سے مایوس
کاغذ کے لیے موئے قلم سنگ بچا کیا
محفوظ ہمیں ریگ حصاروں میں ہوئے تھے
کیا ورنہ سمندر کا گزر موج ہوا کیا
وہ شخص مرے سائے سے رکھتا ہے تعلق
میرا ہی یقیں ٹوٹ گیا اس کا گیا کیا
اس برف کے انسان کی تخلیق مری تھی
اس دھوپ کی نگری میں ملے اس کا پتا کیا
خود تیر حدوں میں ہوں ابھی سچ ہے یہ منظورؔ
اس چشم گرفتار کو مانوں گا خدا کیا