میرے سامنے میرے گھر کا پورا نقشہ بکھرا ہے
میرے سامنے میرے گھر کا پورا نقشہ بکھرا ہے
کاش کوئی ایسا ہوتا جو دیکھے کیا کیا بکھرا ہے
میں نے چاہا بیتے برسوں کو بھی مٹھی میں بھر لوں
اس کوشش میں میرے آج کا لمحہ لمحہ بکھرا ہے
پہلے اس کے سائے کے رسیا لوگ تھے اب یہ کہتے ہیں
یہ بھی کوئی پیڑ ہے جس کا پتا پتا بکھرا ہے
شاید ایسے ہی بے منزل رہنا اپنی قسمت ہے
ہم کس رستے کو اپنائیں ہر اک رستہ بکھرا ہے
اس کی کیا تعبیر کروں میں کچھ تو ہی سمجھا منظورؔ
میں نے خواب میں دیکھا صحرا میں اک دریا بکھرا ہے