وحشتیں پھیلی ہیں ہر سو دو جہاں خاموش ہے
وحشتیں پھیلی ہیں ہر سو دو جہاں خاموش ہے ہے زمیں گریہ کناں اور آسماں خاموش ہے بیٹیوں کے مان ہونا چاہیے اپمان ہے دیکھ کر سب کچھ بھی یہ ہندوستاں خاموش ہے ظلمتوں کی آنچ سے جھلسے غریبوں کے ہی گھر آگ بڑھتی جا رہی ہے اور دھواں خاموش ہے تھا چمن گلزار پہلے اب ہے اجڑی وادیاں ہو گیا ...