تمہاری نظریں یوں برق دل پہ گرا رہی ہیں

تمہاری نظریں یوں برق دل پہ گرا رہی ہیں
کہ سوئی سوئی سی دھڑکنوں کو جگا رہی ہیں


دیا محبت کا میرے سینے میں جل رہا ہے
یہ چاہتیں دل سے تیرگی کو مٹا رہی ہیں


سنو نہ ایسی نشیلی نظروں سے مجھ کو دیکھو
تمہاری نظریں یہ تیر ہم پہ چلا رہی ہیں


حقیقتاً اب تو اپنی بانہوں کو دو اجازت
کہ یہ تصور میں مجھ کو سینے لگا رہی ہیں


چلو چلیں مل کے ہم محبت کے گیت گائیں
سہانے موسم کی یہ فضائیں بھی گا رہی ہیں


قریب آؤ تمہارے ہونٹوں کو چوم لوں میں
یہ دوریاں اب تو بے قراری بڑھا رہی ہیں


لبوں کو جنبش ذرا سا کر دو کہ آج حیدرؔ
تڑپ رہا ہے یہ اس کی آنکھیں بتا رہی ہیں