ٹوٹا ہے بس خوشی کا بھرم اور کچھ نہیں
ٹوٹا ہے بس خوشی کا بھرم اور کچھ نہیں
پایا ہے صرف درد و الم اور کچھ نہیں
مجھ پر گراں یہ ہجر کی اب کالی رات ہے
تنہائیوں میں گھٹتا ہے دم اور کچھ نہیں
بے چینیوں کے ساتھ ٹہل کر تمام رات
پاؤں میں رہ گئے ہیں ورم اور کچھ نہیں
منہ موڑنا وہ دل کا جلانا مرے حبیب
ڈھائے گئے ہیں مجھ پہ ستم اور کچھ نہیں
دھڑکن اداس دل پہ اداسی کی دھوپ ہے
لپٹا ہے مجھ سے تیرا یہ غم اور کچھ نہیں
حیدرؔ کی دھڑکنوں کی صدا ہے یہ ہم نشیں
دل پہ ہے تیرا نام رقم اور کچھ نہیں