Hafeez Jauhar

حفیظ جوہر

حفیظ جوہر کی غزل

    ہاتھ میں ہے اک پرانی ڈائری

    ہاتھ میں ہے اک پرانی ڈائری کھولنے بیٹھا ہوں گرہیں یاد کی اس سے وعدہ ہے ملیں گے شام کو شام کتنی دیر کے بعد آئے گی ہم نے سوچا تھا چلیں گے سیر کو راستوں نے پھر سفیدی اوڑھ لی گرم کمروں سے نکلتا کون ہے محفلیں اجڑی ہوئی ہیں شہر کی چبھ رہی ہے میری آنکھوں میں بہت چار سو پھیلی ہوئی بے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسے نمو کے سلسلے ہیں

    یہ کیسے نمو کے سلسلے ہیں شاخوں پہ گلاب جل بجھے ہیں پھیلی ہے ستم کی آگ ہرسو ہر سمت الاؤ جل رہے ہیں ہر آنکھ سوال کر رہی ہے ہر دل میں ہزار وسوسے ہیں برسی ہیں بلائیں آسماں سے دھرتی پہ عذاب اگ رہے ہیں محفوظ نہیں پناہ گاہیں کیا عقل رسا کے معجزے ہیں بازار لہو کی وحشتوں کے تہذیب کے ...

    مزید پڑھیے

    خواہش سے جب رنگ اترنے لگتے ہیں

    خواہش سے جب رنگ اترنے لگتے ہیں موسم اپنے اندر مرنے لگتے ہیں اک بادل کو دیکھ کے دشت کی آنکھوں میں سیرابی کے خواب سنورنے لگتے ہیں جب دریا کی چال سمجھ میں آتی ہے لوگ کناروں پر بھی ڈرنے لگتے ہیں دن کٹتا ہے سورج کی ہم راہی میں شب کو دل کے داغ بھی جلنے لگتے ہیں اس کا فون نہیں ملتا تو ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتائیں کیا کمایا عشق میں (ردیف .. ی)

    کیا بتائیں کیا کمایا عشق میں درد ہے دل میں نہ آنکھوں میں نمی قرب میں جس کے گزارے روز و شب اجنبی ہے اتنے برسوں بعد بھی تھا مرے دل میں کبھی اس کا مکاں میں نے جس کو دور سے آواز دی اب تو وہ موسم پرانے ہو گئے اب تو وہ باتیں ہیں ساری خواب کی ربط جوہرؔ ان سے اتنا رہ گیا فون کی گھنٹی بجی ...

    مزید پڑھیے

    بے نمود درد کی نمائش کیوں

    بے نمود درد کی نمائش کیوں دل سے کرتی ہے آنکھ سازش کیوں غم جو لکھا ہوا ہے چہرے پہ کوئی پڑھ لے تو اس سے رنجش کیوں وہ جو ہر زاویے سے دل میں ہے اس کو پھر دیکھنے کی خواہش کیوں خواب تازہ جگائے آنکھوں میں ہم پہ موسم کی یہ نوازش کیوں سب کو اپنے ہی کام تھے اس سے کوئی کرتا مری سفارش کیوں

    مزید پڑھیے