یہ کیسے نمو کے سلسلے ہیں

یہ کیسے نمو کے سلسلے ہیں
شاخوں پہ گلاب جل بجھے ہیں


پھیلی ہے ستم کی آگ ہرسو
ہر سمت الاؤ جل رہے ہیں


ہر آنکھ سوال کر رہی ہے
ہر دل میں ہزار وسوسے ہیں


برسی ہیں بلائیں آسماں سے
دھرتی پہ عذاب اگ رہے ہیں


محفوظ نہیں پناہ گاہیں
کیا عقل رسا کے معجزے ہیں


بازار لہو کی وحشتوں کے
تہذیب کے نام پر سجے ہیں


غیروں پہ ہے انحصار اپنا
سوچیں بھی ادھار مانگتے ہیں


سورج بھی ہے دسترس میں لیکن
ہم روشنی کو ترس گئے ہیں


کیا جانیے عہد نو کب آئے
اب تک تو پرانے سلسلے ہیں