ہاتھ میں ہے اک پرانی ڈائری

ہاتھ میں ہے اک پرانی ڈائری
کھولنے بیٹھا ہوں گرہیں یاد کی


اس سے وعدہ ہے ملیں گے شام کو
شام کتنی دیر کے بعد آئے گی


ہم نے سوچا تھا چلیں گے سیر کو
راستوں نے پھر سفیدی اوڑھ لی


گرم کمروں سے نکلتا کون ہے
محفلیں اجڑی ہوئی ہیں شہر کی


چبھ رہی ہے میری آنکھوں میں بہت
چار سو پھیلی ہوئی بے منظری


پیار کی خوشبو سے خالی نسبتیں
رابطے سب دل کے رنگوں سے تہی


اک تعلق بنتے بنتے رہ گیا
کھلتے کھلتے اک کلی مرجھا گئی