کیا بتائیں کیا کمایا عشق میں (ردیف .. ی)

کیا بتائیں کیا کمایا عشق میں
درد ہے دل میں نہ آنکھوں میں نمی


قرب میں جس کے گزارے روز و شب
اجنبی ہے اتنے برسوں بعد بھی


تھا مرے دل میں کبھی اس کا مکاں
میں نے جس کو دور سے آواز دی


اب تو وہ موسم پرانے ہو گئے
اب تو وہ باتیں ہیں ساری خواب کی


ربط جوہرؔ ان سے اتنا رہ گیا
فون کی گھنٹی بجی بجتی رہی