خواہش سے جب رنگ اترنے لگتے ہیں

خواہش سے جب رنگ اترنے لگتے ہیں
موسم اپنے اندر مرنے لگتے ہیں


اک بادل کو دیکھ کے دشت کی آنکھوں میں
سیرابی کے خواب سنورنے لگتے ہیں


جب دریا کی چال سمجھ میں آتی ہے
لوگ کناروں پر بھی ڈرنے لگتے ہیں


دن کٹتا ہے سورج کی ہم راہی میں
شب کو دل کے داغ بھی جلنے لگتے ہیں


اس کا فون نہیں ملتا تو اکثر ہم
اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتے ہیں