Habeeb Saifi

حبیب سیفی

حبیب سیفی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    کبھی جب مل کے رہتے تھے وہ صحبت یاد آتی ہے

    کبھی جب مل کے رہتے تھے وہ صحبت یاد آتی ہے ہمیں اپنے بزرگوں کی شرافت یاد آتی ہے کسی بھی معصیت سے میں ہمیشہ دور رہتا ہوں کہ ہر لمحہ مجھے ماں کی نصیحت یاد آتی ہے ہر اک در بند کرتا ہوں کہ شب تو چین سے گزرے تو جب پہلو میں ہوتا تھا وہ ساعت یاد آتی ہے کبھی اوراق ماضی کے پلٹ لیتا ہوں فرصت ...

    مزید پڑھیے

    ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا

    ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا جو چاہے پڑھ لے ہمارا چہرا کتاب ٹھہرا سنا تھا کانوں سے جو بھی اس نے وہ سب حقیقت ہماری آنکھوں نے جو بھی دیکھا وہ خواب ٹھہرا اکٹھا زر کر لیا ہے اس نے بھی اپنے گھر میں رذیل جتنا تھا اتنا عزت مآب ٹھہرا سنا ہے میں نے وہ شخص بھی بن گیا ہے اچھا ملوں گا ...

    مزید پڑھیے

    برادروں کا مزاج بدلے یا گھر کا سارا رواج بدلے

    برادروں کا مزاج بدلے یا گھر کا سارا رواج بدلے رہی یہ خواہش ہمیشہ اپنی جو کل بدلنا ہے آج بدلے ہمیں تو مطلب ہے روٹیوں سے جو بال بچوں کا پیٹ بھر دے غرض نہیں ہے کوئی بھی ہم کو یہ تخت بدلے کہ تاج بدلے ابھی بھی ذہنوں میں سادگی ہے کہ گاؤں چھوڑے زمانہ بیتا کہ شہر میں بس گئے ہیں لیکن کہاں ...

    مزید پڑھیے

    فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے

    فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے کہ سچائی کے حامی بھی نظر جلدی نہیں آتے تلاش رزق میں کچھ اس قدر مصروف رہتا ہوں مری بچی یہ کہتی ہے کہ گھر جلدی نہیں آتے نہ غم کا غم ہے مجھ کو اب نہ خوشیوں کی خوشی مجھ کو اب آنکھوں میں بھی اشکوں کے گہر جلدی نہیں آتے ہمیشہ دھند سی کیوں چھائی ...

    مزید پڑھیے

    کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہوگا

    کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہوگا ہوا گر کچھ مرے حق میں صلہ تدبیر کا ہوگا مری ہر شب گزر جاتی ہے اکثر اس تمنا میں کوئی تو خواب میری اس نئی تعبیر کا ہوگا بزرگوں کا بھی سایہ اب تو سر سے چھن گیا اپنے کہ یہ بھی حادثہ لکھا مری تقدیر کا ہوگا سبھی اوراق کہنے کو تو ہم نے کر لئے ہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام