کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہوگا

کہاں احسان میری ذات پر تقدیر کا ہوگا
ہوا گر کچھ مرے حق میں صلہ تدبیر کا ہوگا


مری ہر شب گزر جاتی ہے اکثر اس تمنا میں
کوئی تو خواب میری اس نئی تعبیر کا ہوگا


بزرگوں کا بھی سایہ اب تو سر سے چھن گیا اپنے
کہ یہ بھی حادثہ لکھا مری تقدیر کا ہوگا


سبھی اوراق کہنے کو تو ہم نے کر لئے ہیں پر
تم آؤ تو اضافہ اک نئی تحریر کا ہوگا


دلاسہ دونوں جانب سے نئی نسلوں کو ملتا ہے
نہ جانے مسئلہ کب حل مگر کشمیر کا ہوگا


وہ جن باتوں سے اب تک منحرف ہوتے رہے سیفیؔ
وہی عنواں ہماری آج پھر تقریر کا ہوگا