برادروں کا مزاج بدلے یا گھر کا سارا رواج بدلے
برادروں کا مزاج بدلے یا گھر کا سارا رواج بدلے
رہی یہ خواہش ہمیشہ اپنی جو کل بدلنا ہے آج بدلے
ہمیں تو مطلب ہے روٹیوں سے جو بال بچوں کا پیٹ بھر دے
غرض نہیں ہے کوئی بھی ہم کو یہ تخت بدلے کہ تاج بدلے
ابھی بھی ذہنوں میں سادگی ہے کہ گاؤں چھوڑے زمانہ بیتا
کہ شہر میں بس گئے ہیں لیکن کہاں ہمارے مزاج بدلے
جو وقت کے ساتھ چلتے رہتے یہ بات پیدا نہ ہوتی ہرگز
ہو مستحق تم سزا کے یوں بھی نہ تم نے اپنے رواج بدلے
برے بھلے کا تو خود ہے مالک جو دل میں آئے وہ کر لے سیفیؔ
تجھے بدلنا ہے تو بدل جا نہیں یہ ممکن سماج بدلے