ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا
ادھورا اپنی ہی زندگی کا حساب ٹھہرا
جو چاہے پڑھ لے ہمارا چہرا کتاب ٹھہرا
سنا تھا کانوں سے جو بھی اس نے وہ سب حقیقت
ہماری آنکھوں نے جو بھی دیکھا وہ خواب ٹھہرا
اکٹھا زر کر لیا ہے اس نے بھی اپنے گھر میں
رذیل جتنا تھا اتنا عزت مآب ٹھہرا
سنا ہے میں نے وہ شخص بھی بن گیا ہے اچھا
ملوں گا کیسے کہ میں تو آخر خراب ٹھہرا
غریب ہر کوئی ناچتا ہے انہیں کی دھن پر
یہ دست اہل عرب میں کیسا رباب ٹھہرا
کیا ہے احسان موت نے دی نجات مجھ کو
شکایتوں کا بھی ختم سیفیؔ لو باب ٹھہرا