کبھی جب مل کے رہتے تھے وہ صحبت یاد آتی ہے

کبھی جب مل کے رہتے تھے وہ صحبت یاد آتی ہے
ہمیں اپنے بزرگوں کی شرافت یاد آتی ہے


کسی بھی معصیت سے میں ہمیشہ دور رہتا ہوں
کہ ہر لمحہ مجھے ماں کی نصیحت یاد آتی ہے


ہر اک در بند کرتا ہوں کہ شب تو چین سے گزرے
تو جب پہلو میں ہوتا تھا وہ ساعت یاد آتی ہے


کبھی اوراق ماضی کے پلٹ لیتا ہوں فرصت میں
تری بیکار باتوں کی بھی حجت یاد آتی ہے


ملی دولت جو دنیا کی بڑھیں بیزاریاں دل کی
سکوں سے جس میں رہتے تھے وہ غربت یاد آتی ہے


طبیعت پھر سے اپنی ڈھونڈھتی ہے ذائقہ سیفیؔ
حسیں دل کش اداؤں کی بھی لذت یاد آتی ہے