کرچیں
ٹکڑا اک نظم کا دن بھر میری سانسوں میں سرکتا ہی رہا لب پہ آیا تو زباں کٹنے لگی دانت سے پکڑا تو لب چھلنے لگے نہ تو پھینکا ہی گیا منہ سے، نہ نگلا ہی گیا کانچ کا ٹکڑا اٹک جائے حلق میں جیسے ٹکڑا وہ نظم کا سانسوں میں سرکتا ہی رہا
سمپورن سنگھ۔ ممتاز فلم ساز و ہدایت کار، فلم نغمہ نگار اور افسانہ نگار۔ مرزا غالب پر ٹیلی ویژن سیریل کے لئے مشہور۔ ساہتیہ اکادمی اوارڈ یافتہ
Film-maker, lyricist and fiction writer. Famous for his tele-serial on Mirza Ghalib. Recipient of Sahitya Academy and Dada Sahab Phalke award.
ٹکڑا اک نظم کا دن بھر میری سانسوں میں سرکتا ہی رہا لب پہ آیا تو زباں کٹنے لگی دانت سے پکڑا تو لب چھلنے لگے نہ تو پھینکا ہی گیا منہ سے، نہ نگلا ہی گیا کانچ کا ٹکڑا اٹک جائے حلق میں جیسے ٹکڑا وہ نظم کا سانسوں میں سرکتا ہی رہا
پومپیئے دفن تھا صدیوں سے جہاں ایک تہذیب تھی پوشیدہ وہاں شہر کھودا تو تواریخ کے ٹکڑے نکلے ڈھیروں پتھرائے ہوئے وقت کے صفحوں کو الٹ کر دیکھا ایک بھولی ہوئی تہذیب کے پرزے سے بچھے تھے ہر سو منجمد لاوے میں اکڑے ہوئے انسانوں کے گچھے تھے وہاں آگ اور لاوے سے گھبرا کے جو لپٹے ہوں گے وہی ...
آٹھ ہی بلین عمر زمیں کی ہوگی شاید ایسا ہی اندازہ ہے کچھ سائنس کا چار اعشاریہ بلین سالوں کی عمر تو بیت چکی ہے کتنی دیر لگا دی تم نے آنے میں اور اب مل کر کس دنیا کی دنیا داری سوچ رہی ہو کس مذہب اور ذات اور پات کی فکر لگی ہے آؤ چلیں اب تین ہی بلین سال بچے ہیں
رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے رات خاموش ہے روتی نہیں ہنستی بھی نہیں کانچ کا نیلا سا گنبد ہے اڑا جاتا ہے خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے اور سناٹوں کی اک دھول اڑی جاتی ہے کاش اک بار کبھی نیند سے اٹھ ...
پورے کا پورا آکاش گھما کر بازی دیکھی میں نے! کالے گھر میں سورج رکھ کے تم نے شاید سوچا تھا میرے سب مہرے پٹ جائیں گے میں نے ایک چراغ جلا کر اپنا رستہ کھول لیا تم نے ایک سمندر ہاتھ میں لے کر مجھ پر ڈھیل دیا میں نے نوح کی کشتی کے اوپر رکھ دی کال چلا تم نے اور میری جانب دیکھا میں نے کال ...
میں بھی اس ہال میں بیٹھا تھا جہاں پردے پہ اک فلم کے کردار زندہ جاوید نظر آتے تھے ان کی ہر بات بڑی، سوچ بڑی، کرم بڑے ان کا ہر ایک عمل ایک تمثیل تھی بس دیکھنے والوں کے لئے میں اداکار تھا اس میں تم اداکارہ تھیں اپنے محبوب کا جب ہاتھ پکڑ کر تم نے زندگی ایک نظر میں بھر کے اس کے سینے پہ بس ...
نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں مصرعے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا بس ترا نام ہی مکمل ہے اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی!
چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا اس کے چھپتے ہی اندھیروں کے نکل آئے تھے ناخن اور جنگل سے گزرتے ہوئے معصوم مسافر اپنے چہروں کو کھرونچوں سے بچانے کے لیے چیخ پڑے تھے چاند کیوں ابر کی اس میلی سی گٹھری میں چھپا تھا اس کے چھپتے ہی اتر آئے تھے شاخوں سے لٹکتے ہوئے آسیب تھے ...
دھوپ لگے آکاش پہ جب دن میں چاند نظر آیا تھا ڈاک سے آیا مہر لگا ایک پرانا سا تیرا چٹھی کا لفافہ یاد آیا چٹھی گم ہوئے تو عرصہ بیت چکا مہر لگا بس مٹیالا سا اس کا لفافہ رکھا ہے!
چار تنکے اٹھا کے جنگل سے ایک بالی اناج کی لے کر چند قطرے بلکتے اشکوں کے چند فاقے بجھے ہوئے لب پر مٹھی بھر اپنی قبر کی مٹی مٹھی بھر آرزوؤں کا گارا ایک تعمیر کی، لیے حسرت تیرا خانہ بدوش بے چارہ شہر میں در بدر بھٹکتا ہے تیرا کاندھا ملے تو سر ٹیکوں