Ghulam Husain Sajid

غلام حسین ساجد

غلام حسین ساجد کی غزل

    افق سے آگ اتر آئی ہے مرے گھر بھی

    افق سے آگ اتر آئی ہے مرے گھر بھی شکست ہوتے ہیں کیا شہر اپنے اندر بھی یہ آب و تاب اسی مرحلے پہ ختم نہیں کوئی چراغ ہے اس آئنے سے باہر بھی خمیر جس نے اٹھایا ہے خاک سے میرا اسی نے خواب سے کھینچا ہے میرا جوہر بھی میں ڈھونڈ لوں گا کوئی راستہ پلٹنے کا جو بند ہوگا کبھی مجھ پہ آپ کا در ...

    مزید پڑھیے

    بھرے پڑے ہوئے سب باغ و راغ تھے اس دن

    بھرے پڑے ہوئے سب باغ و راغ تھے اس دن گلی میں پھول گھروں میں چراغ تھے اس دن یہ اور بات ترے سامنے نہیں آئے مرے جلو میں کئی بد دماغ تھے اس دن اڑا لیا تھا کسی نے خمار آنکھوں سے تہی صباحت گل سے ایاغ تھے اس دن شکستہ حال پڑا تھا میں اپنے بستر پر کھلے ہوئے سبھی رنگ فراغ تھے اس دن کہیں ...

    مزید پڑھیے

    چراغ کی اوٹ میں ہے محراب پر ستارہ

    چراغ کی اوٹ میں ہے محراب پر ستارہ رکا ہوا ہے ابھی گل خواب پر ستارہ یہ کس روانی میں ڈوبتی جا رہی ہیں آنکھیں چمک رہا ہے یہ کیوں رخ آب پر ستارہ رکی ہوئی ہے زمین پانی کے منطقے پر ٹھہر گیا ہے نگاہ بیتاب پر ستارہ کہیں مری دھوپ کی حکومت ہے آئنے پر جھکا ہوا ہے کہیں زر آب پر ستارہ محیط ...

    مزید پڑھیے

    مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے

    مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے یہ آگ اک شہر کے لیے ہے اگر اسی رات کی سیاہی کے ساتھ کھو جائیں گے ستارے تو پھر یہ میرے لہو کا روشن چراغ کس لہر کے لیے ہے طلوع امکان آرزو پر یقین رکھتی ہے ایک دنیا مگر یہ بے کار خواہشوں کی نمود اک زہر کے لیے ...

    مزید پڑھیے

    ٹھہرنے کو ہے بستی کے در و دیوار پر پانی

    ٹھہرنے کو ہے بستی کے در و دیوار پر پانی کہ اب پتھر میں ڈھلتی جا رہی ہے موج حیرانی خیال آتا ہے شہر آرزو کو چھوڑ دینے کا بہت دشوار ہو جاتی ہے جب بھی کوئی آسانی یقیں آیا کہ ارزاں ہے متاع لطف دنیا میں نتیجہ ہے عدو کی قدر کرنے کا پشیمانی مسلسل بڑھ رہا ہوں جادۂ اسلام پر اب تک مگر خوش ...

    مزید پڑھیے

    رجوع کرتے ہوئے اپنے مدعا سے میں

    رجوع کرتے ہوئے اپنے مدعا سے میں ترے علاوہ بھی کچھ مانگ لوں خدا سے میں کوئی چراغ اگر ہو مرے تعاقب میں تھکن سمیٹتا جاؤں نقوش پا سے میں فقیر ہوں اسی کوچے میں خاک پھانکتا ہوں صدا لگا نہیں سکتا مگر حیا سے میں رکوں گا جا کے کسی خوب رو کی چوکھٹ پر گلی میں پھول کھلاتا ہوا دعا سے ...

    مزید پڑھیے

    سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو

    سمجھتے ہیں جو اپنے باپ کی جاگیر مٹی کو بناؤں گا میں ان کے پاؤں کی زنجیر مٹی کو ہوا سطح زمیں پر اب خط گل زار کھینچے گی کہ خوش آتی نہیں ہے ابر کی تحریر مٹی کو سیہ پڑ جائے گی ذروں کی رنگت ایک ہی پل میں اگر قسمت سے مل جائے مری تقدیر مٹی کو جلالی آئنہ اک آسماں پر مہر تاباں ہے بنایا ہے ...

    مزید پڑھیے

    مرے نجم خواب کے روبرو کوئی شے نہیں مرے ڈھنگ کی

    مرے نجم خواب کے روبرو کوئی شے نہیں مرے ڈھنگ کی یہ فلک ہے کشت غبار سا یہ زمیں ہے پانی کے رنگ کی کسی شام میرے جلو میں تھا کوئی خواب وسعت شہر کا کسی صبح میرے وجود پر یہ زمین لوگوں نے تنگ کی مری بے کلی کا ثبوت ہے مری شمع خواب کے سامنے کوئی گرم موج گمان کی کوئی سرد لہر امنگ کی مرے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی دسترس میں کچھ بھی نہیں

    عشق کی دسترس میں کچھ بھی نہیں جان من! میرے بس میں کچھ بھی نہیں اک تری یاد کا تسلسل ہے اور تار نفس میں کچھ بھی نہیں راز دار بہار رفتہ نہ ہو یوں تو اس خار و خس میں کچھ بھی نہیں پرورش پا رہا ہے نخل زیاں نفع کیا اس برس میں کچھ بھی نہیں آخر کار ہارنے کے سوا اختیار ہوس میں کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک گھر اپنے لیے تیار کرنا ہے مجھے

    ایک گھر اپنے لیے تیار کرنا ہے مجھے اور اک بستی کو بھی مسمار کرنا ہے مجھے اس اندھیرے میں چھپانا ہے کوئی دشمن مگر اس اجالے میں کسی پر وار کرنا ہے مجھے ایک ندی کے کنارے پر ٹھہرنے کے لیے شام ہونے تک یہ دریا پار کرنا ہے مجھے ڈھونڈ لایا ہوں خوشی کی چھاؤں جس کے واسطے ایک غم سے بھی اسے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5