Ghulam Husain Sajid

غلام حسین ساجد

غلام حسین ساجد کی غزل

    دن کے پیکر میں کہیں رات میں ڈھلتے ہوئے رنگ

    دن کے پیکر میں کہیں رات میں ڈھلتے ہوئے رنگ جانے رکتے ہیں کہاں نیند میں چلتے ہوئے رنگ آخری شمع بجھاتے ہوئے اپنے گھر کی میں دیکھے تھے کسی طاق میں جلتے ہوئے رنگ اس پری زاد کی آنکھوں میں دکھائی دیں گے ایک ہی پل میں کئی رنگ بدلتے ہوئے رنگ سر اٹھاتے ہیں مرے ڈوبتے لہجے میں کہیں گفتگو ...

    مزید پڑھیے

    نہیں آساں کسی کے واسطے تخمینہ میرا

    نہیں آساں کسی کے واسطے تخمینہ میرا مقرر ہے دیار غیب سے روزینہ میرا دم رخصت اگر میں حوصلے سے کام لیتا پلٹ کر دیکھ سکتا تھا اسے آئینہ میرا ہدف بن پائیں گی آنکھیں نہ میرے دشمنوں کی مقابل ہے خدنگ خواب کے اب سینہ میرا پڑا رہتا ہوں کنج عافیت میں سر چھپا کر گزر جاتا ہے یوں ہی ثبت اور ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو زہر دوں گا اور کسی کو جام دوں گا

    کسی کو زہر دوں گا اور کسی کو جام دوں گا میں اپنے جاں نثاروں کو یہی انعام دوں گا اندھیرے میں دمک اٹھتے ہیں جتنے بھی ستارے اگر فرصت ملی تو میں انہیں کچھ نام دوں گا کسی تاریک مٹی پر مجھے بھی ساتھ رکھنا کہ میں تجھ کو کسی مشکل گھڑی میں کام دوں گا تھکا ہارا ہوں تنہا ہوں مگر یہ بات طے ...

    مزید پڑھیے

    صبح تک جن سے بہت بیزار ہو جاتا ہوں میں

    صبح تک جن سے بہت بیزار ہو جاتا ہوں میں رات ہوتے ہی انہی گلیوں میں کھو جاتا ہوں میں خواب میں گم ہوں کہ باہر کی فضا اچھی نہیں آنکھ کھلتے ہی کہیں زنجیر ہو جاتا ہوں میں کھینچ لاتی ہے اسی کوچے میں پھر آوارگی روز جس کوچے سے اپنے شہر کو جاتا ہوں میں اس اندھیرے میں چراغ خواب کی خواہش ...

    مزید پڑھیے

    میں اس پری کا اگر مدعا نہیں سمجھا

    میں اس پری کا اگر مدعا نہیں سمجھا سمجھ میں کیا نہیں آیا میں کیا نہیں سمجھا یہی بہت ہے کہ اس بار بھی میں دشمن کو برا سمجھتے ہوئے بھی برا نہیں سمجھا وہ مانتا ہے مرے اختلاف کے حق کو اسے بٹھایا ہے سر پر خدا نہیں سمجھا چراغ و آئنہ حیران کیوں نہیں ہوں گے کہ میں صباحت گل کی ادا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے

    سسک رہی ہیں تھکی ہوائیں لپٹ کے اونچے صنوبروں سے لہو کی مہکار آ رہی ہے کٹے ہوئے شام کے پروں سے عجب نہیں خاک کی اداسی بھری نگاہوں کا اذن پا کر پلٹ پڑیں ایک دن رواں پانیوں کے دھارے سمندروں سے وہ کون تھا جو کہیں بہت دور کے نگر سے پکارتا تھا وہ کیا صدا تھی کہ ایسی عجلت میں لوگ رخصت ...

    مزید پڑھیے

    کوئی جب چھین لیتا ہے متاع صبر مٹی سے

    کوئی جب چھین لیتا ہے متاع صبر مٹی سے تو اپنے آپ اگ آتی ہے اس کی قبر مٹی سے سجا رکھا تھا معبد کے کسی تاریک گوشے میں بنا کر ایک دست مہرباں نے ابر مٹی سے کہاں جی شاد رہتا ہے فقط کار محبت میں کہ ورثے میں ملا ہے آدمی کو جبر مٹی سے میں اس کوزے کے پانی سے کوئی شمشیر ڈھالوں گا اور اس کو ...

    مزید پڑھیے

    آج آئینے میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے

    آج آئینے میں جو کچھ بھی نظر آتا ہے اس کے ہونے پہ یقیں بار دگر آتا ہے ذہن و دل کرتا ہوں جب رنج جہاں سے خالی کوئی بے طرح مری روح میں در آتا ہے گفتگو کرتے ہوئے جاتے ہیں پھولوں کے گروہ اور چپکے سے درختوں پہ ثمر آتا ہے بچ نکلنے پہ مرے خوش نہیں وہ جان بہار کوئی الزام مکرر مرے سر آتا ...

    مزید پڑھیے

    لہو کی آگ اگر جلتی رہے گی

    لہو کی آگ اگر جلتی رہے گی ہماری دال بھی گلتی رہے گی بھروسا ہے اگر دنیا کو ہم پر ہمارے رنگ میں ڈھلتی رہے گی محبت ہے اگر سچی ہماری متاع خواب پر پلتی رہے گی چمن اب دیر تک رقصاں رہے گا ہوا اب دیر تک چلتی رہے گی کہاں آئے گی اپنے وقت پر موت وہ اگلے روز پر ٹلتی رہے گی جہاں میں سرخ رو ...

    مزید پڑھیے

    جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا

    جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا کہ ایسی خاک پر ایسا سمندر ہو نہیں سکتا رواں رہتا ہے کیسے چین سے اپنے کناروں میں یہ دریا میری بیتابی کا مظہر ہو نہیں سکتا کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا بہت بے تاب ہوتا ہوں میں اس کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5