مرے نجم خواب کے روبرو کوئی شے نہیں مرے ڈھنگ کی

مرے نجم خواب کے روبرو کوئی شے نہیں مرے ڈھنگ کی
یہ فلک ہے کشت غبار سا یہ زمیں ہے پانی کے رنگ کی


کسی شام میرے جلو میں تھا کوئی خواب وسعت شہر کا
کسی صبح میرے وجود پر یہ زمین لوگوں نے تنگ کی


مری بے کلی کا ثبوت ہے مری شمع خواب کے سامنے
کوئی گرم موج گمان کی کوئی سرد لہر امنگ کی


مرے آسماں کے لیے نہ تھا کوئی پھول آتش صبح کا
سو مرے لہو کے چراغ نے کئی سرد راتوں سے جنگ کی


مرے خاکداں کی سپر تو ہے کسی موج تیز سے آئنہ
مرے خواب ستیز کی تیغ پر وہی تا دمکتی ہے زنگ کی