Ghulam Husain Sajid

غلام حسین ساجد

غلام حسین ساجد کی غزل

    اک شمع کی صورت میں منظور کیا جاؤں

    اک شمع کی صورت میں منظور کیا جاؤں اک گھر کی حفاظت پر مامور کیا جاؤں اپنے سے بچھڑنے کی کچھ فکر نہیں لیکن ایسا نہ ہو اس سے بھی اب دور کیا جاؤں اک یاد سے مس ہو کر زنجیر پگھل جائے اک گل کی محبت سے مخمور کیا جاؤں ایسا نہ ہو دنیا کی وسعت سے نکلتے ہی اپنے میں سمٹنے پر مجبور کیا جاؤں اے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ

    کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ بہت قریب ہے منزل ذرا سا چل کر دیکھ ترے حصار سے باہر نہیں زمان و مکاں تو میری طرح کسی آئنے میں ڈھل کر دیکھ فقیر بن کے وہ آیا ہے تیری چوکھٹ پر یہ کوئی اور نہیں ہے ذرا سنبھل کر دیکھ نگار خانۂ گردوں کو راکھ کرتے ہوئے ذرا سی دیر کسی طاقچے میں جل کر ...

    مزید پڑھیے

    زمین میری رہے گی نہ آئنہ میرا

    زمین میری رہے گی نہ آئنہ میرا کہ آزمانے چلا ہے مجھے خدا میرا مرے طلسم سے آزاد بھی نہیں لیکن وہ پھول پہلی نظر میں ہوا نہ تھا میرا نعیم بصرہ و بغداد ہارنے کے بعد مرا وجود بھی شاید نہیں رہا میرا وہ میرے پاس رہے یا کہیں چلا جائے رہے گا اس کے خیالوں سے سلسلہ میرا کسی کی کھوج میں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی شب ہے مئے الفت انڈیلیں

    ابھی شب ہے مئے الفت انڈیلیں مگر دن میں گھروں کے راستے لیں چلو رک جائیں بہر‌ دید ہم بھی دریچے پر جھکی جاتی ہیں بیلیں خدایا کاش یہ ہیرے سی آنکھیں محبت کی کڑی بازی نہ کھیلیں ارادہ ہے نہ پہچانیں اسے ہم تمنا کو یہ ضد باہوں میں لے لیں بہت عرصہ رہے ہیں ساتھ اس کے سو اب تنہائی بھی کچھ ...

    مزید پڑھیے

    سر پر کسی غریب کے ناچار گر پڑے

    سر پر کسی غریب کے ناچار گر پڑے ممکن ہے میرے صبر کی دیوار گر پڑے کیا خوب سرخ رو ہوئے ہم کار عشق میں دو چار کام آ گئے دو چار گر پڑے اس بار جب اجل سے مرا سامنا ہوا کشتی سے خواب ہاتھ سے پتوار گر پڑے روشن کوئی چراغ نہیں نخل طور پر سجدے میں کس کو دیکھ کے اشجار گر پڑے کرتی ہے فرش خاک کو ...

    مزید پڑھیے

    لرز جاتا ہے تھوڑی دیر کو تار نفس میرا

    لرز جاتا ہے تھوڑی دیر کو تار نفس میرا سر میداں کبھی جب جست کرتا ہے فرس میرا میں خود سے دور ہو جاتا ہوں اس سے دور ہونے پر رہائی چاہتا ہوں اور مقدر ہے قفس میرا ذرا مشکل سے اب پہچانتا ہوں ان مناظر کو قیام اس خاک داں پر تھا ابھی پچھلے برس میرا دعا کرتا ہوں ملنے کی تمنا کر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دیے جلائے گئے آئنے بنائے گئے

    دیے جلائے گئے آئنے بنائے گئے کوئی بتائے یہاں کون لوگ آئے گئے متاع درہم و دینار پر نہیں موقوف میں سو گیا تو مرے خواب تک چرائے گئے بہت سے لوگ ستائے گئے ہیں دنیا میں مگر وہ مجھ سے زیادہ نہیں ستائے گئے چراغ سرد ہوئے دھوپ کی تمازت سے درخت نیند کے عالم میں تھرتھرائے گئے پناہ مل نہ ...

    مزید پڑھیے

    جب کوئی پھول مسخر نہ ہو آسانی سے

    جب کوئی پھول مسخر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقد ثنا خوانی سے روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے کر کے دیکھوں گا کسی طرح لہو کی بارش آتش ہجر بجھے گی نہ اگر پانی سے ان کو پانے کی تمنا نہیں جاتی دل سے کیا منور ہیں ستارے مری تابانی ...

    مزید پڑھیے

    حاصل کسی سے نقد حمایت نہ کر سکا

    حاصل کسی سے نقد حمایت نہ کر سکا میں اپنی سلطنت پہ حکومت نہ کر سکا ہر رنگ میں رقیب زر نام و ننگ ہوں میں وہ ہوں جو کسی سے محبت نہ کر سکا گھلتا رہا ہے میری رگوں میں بھی کوئی زہر لیکن میں اس دیار سے ہجرت نہ کر سکا پڑتا نہیں کسی کے بچھڑنے سے کوئی فرق میں اس کو سچ بتانے کی زحمت نہ کر ...

    مزید پڑھیے

    متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے

    متاع برگ و ثمر وہی ہے شباہت رنگ و بو وہی ہے کھلا کہ اس بار بھی چمن پر گرفت دست نمو وہی ہے حکایت عشق سے بھی دل کا علاج ممکن نہیں کہ اب بھی فراق کی تلخیاں وہی ہیں وصال کی آرزو وہی ہے بدل دیے ہیں کسی نے افسوں سے کام لے کر تمام مہرے کہ سحر امروز کے مقابل نہ میں وہی ہوں نہ تو وہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5