رجوع کرتے ہوئے اپنے مدعا سے میں

رجوع کرتے ہوئے اپنے مدعا سے میں
ترے علاوہ بھی کچھ مانگ لوں خدا سے میں


کوئی چراغ اگر ہو مرے تعاقب میں
تھکن سمیٹتا جاؤں نقوش پا سے میں


فقیر ہوں اسی کوچے میں خاک پھانکتا ہوں
صدا لگا نہیں سکتا مگر حیا سے میں


رکوں گا جا کے کسی خوب رو کی چوکھٹ پر
گلی میں پھول کھلاتا ہوا دعا سے میں


کبھی کبھی یوں ہی اپنے سے پوچھ لیتا ہوں
کسی کے کھوج میں نکلا تھا کب سبا سے میں


مرے بغیر مکمل نہیں ہے یہ دنیا
کہ اس قضیے میں شامل ہوں ابتدا سے میں


شگفت ہوتا ہوا آئنہ ہے دل میرا
مرے خدا ابھی محفوظ ہوں ریا سے میں


رگوں میں برف بنی نیند کے پگھلنے پر
تمہیں پکارتے نکلوں گا نینوا سے میں


سنا ہے راہ میں ہوتے ہیں سایہ دار شجر
کبھی ملوں گا کسی درد آشنا سے میں


لگا رہوں گا یوں ہی وصل کی تگ و دو میں
مروں کہ زندہ رہوں آپ کی بلا سے میں


گلاب کھلنے لگے ہیں مری رگ و پے میں
کہوں گا جا کے چمن میں کبھی صبا سے میں


ہدف بناؤں کسی سورما کو اب ساجدؔ
تمام عمر نہ لڑتا رہوں ہوا سے میں