موسم بدل سکے نہ ترے انتظار کے

موسم بدل سکے نہ ترے انتظار کے
اب کے بھی دن گزر گئے یوں ہی بہار کے


غم خیز و غم شناس مری پر شکوہ رات
کب آؤگی پہاڑ سا یہ دن گزار کے


آیا حضور یار سے شاعر کو یہ پیام
آئے شراب‌ و شعر کا چوغا اتار کے


دل میں ترے اتر نہ سکی میری کوئی بات
لکھے ہیں لاکھ شعر غزل کے سنوار کے


ایک مشت خاک بن کے اڑا دل کا کارواں
دشت طلب میں اب بھی نشاں ہیں غبار کے