دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے
دیکھا نہیں وہ آدمی تنہا کہوں جسے
وہ آج تک ملا نہیں اپنا کہوں جسے
صدیوں سے انتظار ہے اس ایک شخص کا
آئے ہو کتنی دیر سے اتنا کہوں جسے
نظریں ترس کے رہ گئیں تا عکس آبشار
دیکھا نہیں ہے پانی کا قطرہ کہوں جسے
کون و مکاں میں موجزن ہے تیری آگہی
اک لمحہ بھی ملا نہیں تیرا کہوں جسے
دریا ہوں موج بن کے رواں ہوں تری طرف
اس پار کوئی گھر بھی ہے اپنا کہوں جسے
افسون انتظار تمنا کا نام ہے
حسن طلب میں آرزو گویا کہوں جسے