Fida-ul-Mustafa Fidwi

فداء المصطفیٰ فدوی

  • 1952

فداء المصطفیٰ فدوی کی غزل

    وہ شخص ہے اسیر کسی کی اداؤں میں

    وہ شخص ہے اسیر کسی کی اداؤں میں حسرت سے دیکھتا ہے جو اکثر خلاؤں میں سودا سفر کا سر میں سمایا کچھ اس طرح دم بھر کہیں لیا نہ درختوں کی چھاؤں میں بستی ہے ڈائنوں کی یہ جنگل ڈراؤنا ٹھہرے اگر یہاں تو پھنسوگے بلاؤں میں شہر نگار تیری فضا سوگوار ہے اک راگنی سی درد کی ہے ان ہواؤں ...

    مزید پڑھیے

    تکمیل کو پہنچ کے بکھرتا ہوا وجود

    تکمیل کو پہنچ کے بکھرتا ہوا وجود اپنی بلندیوں سے اترتا ہوا وجود راز حیات اپنی نظر میں لیے ہوئے سرحد سے زندگی کی گزرتا ہوا وجود کانٹوں کی نوک پر بھی ہنسی بھولتا نہیں شبنم کے موتیوں کا بکھرتا ہوا وجود تجدید آرزوئے دل آرا کیے ہوئے ہر شام زندگی کا سنورتا ہوا وجود دھندلا نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    دشت ہوس میں دوڑتے پھرنے سے کام تھا

    دشت ہوس میں دوڑتے پھرنے سے کام تھا خواہش کا اسپ تیز بھی کیا بے لگام تھا پر پھڑپھڑائے اڑنے کی ہمت نہ کر سکے بس اک اڑان بھرنے میں قصہ تمام تھا جو نشۂ حیات سے سرشار تھا کبھی ہاتھوں میں زندگی کا لیے خالی جام تھا ملک عدم روانہ ہوئے رہروان شوق تھا کوئی سست رو تو کوئی تیز گام تھا کب ...

    مزید پڑھیے

    رات اندھیری شہر کی گلیوں میں اب سناٹا ہوگا

    رات اندھیری شہر کی گلیوں میں اب سناٹا ہوگا کیا گھر کی دہلیز پہ اب تک روشن کوئی دیا ہوگا میرا خالی کمرہ میری راہ تکے گا رات تمام گھر سے باہر رات گزاروں گا تو وہ تنہا ہوگا میں وہ شجر ہوں جس کو اپنے گرنے کا افسوس نہیں مجھ پہ بسیرا کرتے ہیں جو پنچھی ان کا کیا ہوگا میں نہ رہوں گا ...

    مزید پڑھیے

    مری تلاش میں وہ روشنی کا پیکر تھا

    مری تلاش میں وہ روشنی کا پیکر تھا یہ اور بات کہ میں تیرگی کا خوگر تھا کسے خبر تھی کہ کوئی عقاب سر پر تھا ابھی ابھی تو مرے سامنے کبوتر تھا مجھے گلے سے لگایا تھا پھینک کر تلوار مگر چھپائے ہوئے آستیں میں خنجر تھا بناتا کون نئے بت پرانے توڑتا کون سواد شہر میں اب غزنوی نہ آذر ...

    مزید پڑھیے