رات اندھیری شہر کی گلیوں میں اب سناٹا ہوگا

رات اندھیری شہر کی گلیوں میں اب سناٹا ہوگا
کیا گھر کی دہلیز پہ اب تک روشن کوئی دیا ہوگا


میرا خالی کمرہ میری راہ تکے گا رات تمام
گھر سے باہر رات گزاروں گا تو وہ تنہا ہوگا


میں وہ شجر ہوں جس کو اپنے گرنے کا افسوس نہیں
مجھ پہ بسیرا کرتے ہیں جو پنچھی ان کا کیا ہوگا


میں نہ رہوں گا میری باتیں یاد تمہیں جب آئیں گی
رنگ کبھی رخسار کا اڑ جائے گا کبھی گہرا ہوگا


آگ کے اس پیکر کو خود اپنی آگ میں جلتے دیکھا ہے
تم نے سمندر میں سورج کو ڈوبتے کب دیکھا ہوگا