وہ شخص ہے اسیر کسی کی اداؤں میں
وہ شخص ہے اسیر کسی کی اداؤں میں
حسرت سے دیکھتا ہے جو اکثر خلاؤں میں
سودا سفر کا سر میں سمایا کچھ اس طرح
دم بھر کہیں لیا نہ درختوں کی چھاؤں میں
بستی ہے ڈائنوں کی یہ جنگل ڈراؤنا
ٹھہرے اگر یہاں تو پھنسوگے بلاؤں میں
شہر نگار تیری فضا سوگوار ہے
اک راگنی سی درد کی ہے ان ہواؤں میں
میں نے نواز وقت ہوں میری نوا سنو
پیدا کیا گیا ہوں اگر بے نواؤں میں