دشت ہوس میں دوڑتے پھرنے سے کام تھا

دشت ہوس میں دوڑتے پھرنے سے کام تھا
خواہش کا اسپ تیز بھی کیا بے لگام تھا


پر پھڑپھڑائے اڑنے کی ہمت نہ کر سکے
بس اک اڑان بھرنے میں قصہ تمام تھا


جو نشۂ حیات سے سرشار تھا کبھی
ہاتھوں میں زندگی کا لیے خالی جام تھا


ملک عدم روانہ ہوئے رہروان شوق
تھا کوئی سست رو تو کوئی تیز گام تھا


کب مستقل قیام کسی کا یہاں رہا
مہماں سرا میں ایسا کہاں اہتمام تھا