تکمیل کو پہنچ کے بکھرتا ہوا وجود
تکمیل کو پہنچ کے بکھرتا ہوا وجود
اپنی بلندیوں سے اترتا ہوا وجود
راز حیات اپنی نظر میں لیے ہوئے
سرحد سے زندگی کی گزرتا ہوا وجود
کانٹوں کی نوک پر بھی ہنسی بھولتا نہیں
شبنم کے موتیوں کا بکھرتا ہوا وجود
تجدید آرزوئے دل آرا کیے ہوئے
ہر شام زندگی کا سنورتا ہوا وجود
دھندلا نہ جائے یورش ظلمات سے کہیں
اب اجلی چاندنی کا نکھرتا ہوا وجود