مری تلاش میں وہ روشنی کا پیکر تھا
مری تلاش میں وہ روشنی کا پیکر تھا
یہ اور بات کہ میں تیرگی کا خوگر تھا
کسے خبر تھی کہ کوئی عقاب سر پر تھا
ابھی ابھی تو مرے سامنے کبوتر تھا
مجھے گلے سے لگایا تھا پھینک کر تلوار
مگر چھپائے ہوئے آستیں میں خنجر تھا
بناتا کون نئے بت پرانے توڑتا کون
سواد شہر میں اب غزنوی نہ آذر تھا
اندھیری رات بیاباں مہیب سناٹا
بھلا ہوا کہ مرا داغ دل منور تھا