Feroz Ahmed

فیروز احمد

  • 1990

فیروز احمد کی غزل

    تری چاہتوں کے خیال میں کئی حسرتیں بھی ملیں مجھے

    تری چاہتوں کے خیال میں کئی حسرتیں بھی ملیں مجھے تجھے دیکھنے کے خمار میں کئی عادتیں بھی ملیں مجھے ہے عجب طرح کا معاملہ کبھی زندگی نے جو دی سزا تو ستم کے ساتھ مرے خدا بڑی راحتیں بھی ملیں مجھے ہاں برا کسی کا نہیں کیا مگر ایک درد کی بات یہ کہ بھلا کیا تو کیا مگر یہیں تہمتیں بھی ملیں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ اس کے ہاتھ سے اب یوں پھسلتا جا رہا ہے

    ہاتھ اس کے ہاتھ سے اب یوں پھسلتا جا رہا ہے جسم سے جیسے ہمارا دم نکلتا جا رہا ہے دل کسی کا توڑ کر اس نے بکھیری زندگی اب جوڑنے کی ضد میں وہ خود ہی بکھرتا جا رہا ہے فاصلوں کو اب مٹانے کے لیے اس کی ہی جانب میں کھسکتا جا رہا ہوں وہ سمٹتا جا رہا ہے راستے پر آگ ہے بارش بھی ہے کانٹے بھی ...

    مزید پڑھیے

    جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے

    جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے یہ قبرستان کو دیکھو ذرا کتنا برابر ہے سمندر کی خموشی بھی تو اک دن ٹوٹ جاتی ہے مگر کیسے بھلا ٹوٹے جو تیرے ان لبوں پر ہے بہت تڑپا رہے ہو باپ کو رستے میں تم لیکن اسی رستے میں ہے بیٹا عجب کیسا یہ چکر ہے حقیقت زندگی کی کھل گئی مجھ پر کہ دنیا ...

    مزید پڑھیے

    کوئی آنسو بہاتا ہے کوئی فریاد کرتا ہے

    کوئی آنسو بہاتا ہے کوئی فریاد کرتا ہے یہ دل تجھ کو بھلا کر کیوں تجھے ہی یاد کرتا ہے تباہی کے بہت سارے وسیلے ہیں مگر اک تو محبت ہی میں اپنے آپ کو برباد کرتا ہے ترے دل میں محبت کو جگانے کے لیے اب تو وہ پاگل روز ہی کچھ کچھ نئی ایجاد کرتا ہے درختوں کو جڑوں سے کاٹ کر بنتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے ترے فراق میں ترک وفا نہیں کیا

    ہم نے ترے فراق میں ترک وفا نہیں کیا تو نے وفا نہیں کیا ہم نے جفا نہیں کیا اپنوں کی بے دلی سہی سب میں ہوئے ہیں خوار ہم ورنہ ذرا بتاؤ دل کس کا بھلا نہیں کیا تم نے کسی سے عشق کی کہتے ہیں ہم نوا سبھی ان سے ہے کیسا واسطہ ہم نے کیا نہیں کیا ساری حدوں کو توڑ کر اس نے کئے کئی ستم ہم نے بھی ...

    مزید پڑھیے