کوئی آنسو بہاتا ہے کوئی فریاد کرتا ہے

کوئی آنسو بہاتا ہے کوئی فریاد کرتا ہے
یہ دل تجھ کو بھلا کر کیوں تجھے ہی یاد کرتا ہے


تباہی کے بہت سارے وسیلے ہیں مگر اک تو
محبت ہی میں اپنے آپ کو برباد کرتا ہے


ترے دل میں محبت کو جگانے کے لیے اب تو
وہ پاگل روز ہی کچھ کچھ نئی ایجاد کرتا ہے


درختوں کو جڑوں سے کاٹ کر بنتے ہیں فرنیچر
تو اپنا گھر سجاتا ہے وہ گھر کو یاد کرتا ہے


جلا کر بستیوں کو بولتے پھرتے ہیں یہ ظالم
کوئی برباد کرتا ہے کوئی آباد کرتا ہے


عجب عادت سی اس کو ہو گئی ہے وہ کبوتر کو
پکڑتا ہے پکڑ کر خود ہی پھر آزاد کرتا ہے


کہاں جائے گا خوشیوں کا ٹھکانا ڈھونڈنے فائزؔ
غموں سے اپنے دل کو آج تک وہ شاد کرتا ہے