ہاتھ اس کے ہاتھ سے اب یوں پھسلتا جا رہا ہے
ہاتھ اس کے ہاتھ سے اب یوں پھسلتا جا رہا ہے
جسم سے جیسے ہمارا دم نکلتا جا رہا ہے
دل کسی کا توڑ کر اس نے بکھیری زندگی اب
جوڑنے کی ضد میں وہ خود ہی بکھرتا جا رہا ہے
فاصلوں کو اب مٹانے کے لیے اس کی ہی جانب
میں کھسکتا جا رہا ہوں وہ سمٹتا جا رہا ہے
راستے پر آگ ہے بارش بھی ہے کانٹے بھی ہیں پر
اپنی دھن میں وہ مسافر خوب چلتا جا رہا ہے
وہ سنور کر جب نکلتی ہے گلی میں تب کوئی گر
بول دے اس کو ہمارا دل اجڑتا جا رہا ہے
تم کوئی شاعر نہیں فائزؔ مگر یہ بات بھی ہے
گل کوئی تاریک راتوں میں مہکتا رہا ہے