الفاظ گفتگو کے لیے اب نہیں رہے
الفاظ گفتگو کے لیے اب نہیں رہے
محسوس ہو رہا ہے مرے لب نہیں رہے
مانا کہ فاصلے ہیں بہت پھر بھی یہ بتا
ہم تیرے ساتھ ساتھ بھلا کب نہیں رہے
کچھ دیر گفتگو میں تو شائستہ وہ رہا
پھر یوں ہوا کہ ہم بھی مہذب نہیں رہے
تیشے سے کوئی دودھ کی نہریں نکال دے
ہاتھوں میں اب وہ عشق کے کرتب نہیں رہے
ہاتھوں کو اس کی فتح کی خاطر اٹھا دیا
دیکھا کہ اس کے تیر و کماں جب نہیں رہے