آگ برستی لگتی ہے دیواروں سے
آگ برستی لگتی ہے دیواروں سے
صائبؔ کیا لکھ آئے ہو انگاروں سے
قتل کے بعد مجھے سائے میں ڈال آتے
اتنی تو امید تھی مجھ کو یاروں سے
میرا دکھ سکھ بانٹنے تو آ جاتے ہیں
ہم سایے اچھے ہیں رشتے داروں سے
دیکھ لو اپنا سر رکھا ہے نیزوں پر
فاصلہ ہم نے رکھا ہے دستاروں سے
آخر کب تک قتل کی خبریں پڑھنی ہیں
اب تو وحشت ہوتی ہے اخباروں سے