Fasihullah Naqeeb

فصیح اللہ نقیب

  • 1948

فصیح اللہ نقیب کی غزل

    مستقبل کی سب دل خوش کن باتیں خوابوں تک محدود

    مستقبل کی سب دل خوش کن باتیں خوابوں تک محدود انس محبت مہر و وفا گر ہیں تو کتابوں تک محدود شعر و ادب کو سرحد ورحد سے کیا لینا دینا ہے شعر و ادب کی دنیا کیوں ہے آج نصابوں تک محدود کاروبار دروغ شریفوں کے ایوانوں تک پہنچا سچ کی دولت ہو کر رہ گئی خانہ خرابوں تک محدود استغنا سے آب آتی ...

    مزید پڑھیے

    خیر سے ہوتی رہی راہ نمائی کیا کیا

    خیر سے ہوتی رہی راہ نمائی کیا کیا ورنہ آ جاتی بشر میں کج ادائی کیا کیا معتبر کیسے کہیں تو نے اڑائی کیا کیا اے نظر تجھ کو یہ دنیا نظر آئی کیا کیا بے رخی تھی ولے برگشتگی ایسی تو نہ تھی کیا خبر کس نے وہاں جا کے لگائی کیا کیا دل نے تسلیم کیا کب کہ یقیں آ جاتا اس نے بن بن کے مگر بات ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو حرف دعا یوں زباں تلک آئے

    کبھی تو حرف دعا یوں زباں تلک آئے اتر کے جس کی پذیرائی کو فلک آئے کم از کم اتنے تو آئینہ دار ہوں چہرے کہ دل کے حال کی چہرے پہ بھی جھلک آئے تو پھر یہ کون سا رشتہ ہے گر نہ انس کہوں جو اشک میرے تری آنکھ سے چھلک آئے سجا سجا کے جو رکھے تھے صدیوں صدیوں نے وہ خواب خواب مناظر پلک پلک ...

    مزید پڑھیے

    جوں ہی لب کھولتا ہے وہ تو جادو باندھتا ہے

    جوں ہی لب کھولتا ہے وہ تو جادو باندھتا ہے حسین الفاظ کے پیروں میں گھنگھرو باندھتا ہے اندھیری شب کے دامن میں دمکتے ہیں ستارے خیال یار جب پلکوں پہ جگنو باندھتا ہے مری پرواز کو مشروط کر کے نیک صیاد قفس گر کھول دیتا ہے تو بازو باندھتا ہے سلگتا کھولتا ماحول اور خشکی غزل کی کہ دل اک ...

    مزید پڑھیے

    دوستی کے نئے آداب لئے پھرتے ہیں

    دوستی کے نئے آداب لئے پھرتے ہیں لوگ اب عطر میں تیزاب لئے پھرتے ہیں چاہتے ہیں کہ حقیقت میں ڈھلیں آپ ہی آپ جاگتی آنکھوں میں ہم خواب لئے پھرتے ہیں آنکھ اٹھتی نہیں باہر کے نظاروں کی طرف ہم طبیعت بڑی سیراب لئے پھرتے ہیں احتیاطاً کہ حریفوں کے نہ ہاتھ آ جائیں میرے پرزے مرے احباب لئے ...

    مزید پڑھیے

    حضور مل کے آپ سے میں آج مسکرا دیا

    حضور مل کے آپ سے میں آج مسکرا دیا تبسم آپ کا جو اک ادھار تھا چکا دیا بجا کہ سرکشی غلط قبول انکسار بھی مگر یہ کیا کہ ہر کسی کے آگے سر جھکا دیا میں سختیوں میں جی گیا میں تلخیوں کو پی گیا مگر کسی نے پیار سے صدا جو دی رلا دیا نہ ڈر مرے خمیر میں نہ شر مرے ضمیر میں تمام ظالموں کے نام میں ...

    مزید پڑھیے

    جیسا تم چاہو گے ویسا نہیں ہونے والا

    جیسا تم چاہو گے ویسا نہیں ہونے والا ورنہ ہونے کو یہاں کیا نہیں ہونے والا مقتدر ہو تو غریبوں سے جو چاہو لے لو عزت نفس کا سودا نہیں ہونے والا دل یہ کہتا ہے کسی کو بھی نہ لا خاطر میں عقل کہتی ہے کہ اچھا نہیں ہونے والا امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    اونچے مکان کھا گئے سب میرے گھر کی دھوپ

    اونچے مکان کھا گئے سب میرے گھر کی دھوپ حصہ میں میرے رہ گئی بالشت بھر کی دھوپ کرتا رہوں نگاہ ملا کر میں گفتگو ہر چند چبھ رہی ہو ترے کر و فر کی دھوپ سایہ دریدہ پیرہنی پر خودی کا تھا ریشم سا لمس لائی تھی گو سیم و زر کی دھوپ زرخیزیٔ زمین سخن کے لئے مفید دل کی ہوا شعور کا پانی نظر کی ...

    مزید پڑھیے

    سبھی سے ہم نہیں کھلتے کہ سب نہیں کھلتے

    سبھی سے ہم نہیں کھلتے کہ سب نہیں کھلتے وگرنہ محفل یاراں میں کب نہیں کھلتے ہر ایک شخص کو حسن نظر نہیں ملتا ہر ایک شخص پہ شعر و ادب نہیں کھلتے یہاں پہ داد کو زنجیر اب نہیں کھنچتی یہاں پہ عدل کو دروازے اب نہیں کھلتے کہیں انا پہ یقیناً لگی ہے چوٹ نئی پرانے زخم یوں ہی بے سبب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    نہ اپنی بات نہ میرا قصور لکھا تھا

    نہ اپنی بات نہ میرا قصور لکھا تھا شکایتوں سے بھرا خط ضرور لکھا تھا رسول آئے تو دہشت گروں کے بیچ آئے اندھیری رات کی قسمت میں نور لکھا تھا میں چاہتا بھی جو ملنا تو ان سے کیا ملتا جبیں پہ دور سے دیکھا غرور لکھا تھا وہ گھر کہ جس میں کسی کو کسی سے انس نہیں بڑے سے بورڈ پہ دارالسرور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2