جوں ہی لب کھولتا ہے وہ تو جادو باندھتا ہے
جوں ہی لب کھولتا ہے وہ تو جادو باندھتا ہے
حسین الفاظ کے پیروں میں گھنگھرو باندھتا ہے
اندھیری شب کے دامن میں دمکتے ہیں ستارے
خیال یار جب پلکوں پہ جگنو باندھتا ہے
مری پرواز کو مشروط کر کے نیک صیاد
قفس گر کھول دیتا ہے تو بازو باندھتا ہے
سلگتا کھولتا ماحول اور خشکی غزل کی
کہ دل اک آس کا چھپر لب جو باندھتا ہے
نقیبؔ اشعار اپنے زندگانی کے سفر میں
کوئی زاد سفر میں جیسے ستو باندھتا ہے