خیر سے ہوتی رہی راہ نمائی کیا کیا

خیر سے ہوتی رہی راہ نمائی کیا کیا
ورنہ آ جاتی بشر میں کج ادائی کیا کیا


معتبر کیسے کہیں تو نے اڑائی کیا کیا
اے نظر تجھ کو یہ دنیا نظر آئی کیا کیا


بے رخی تھی ولے برگشتگی ایسی تو نہ تھی
کیا خبر کس نے وہاں جا کے لگائی کیا کیا


دل نے تسلیم کیا کب کہ یقیں آ جاتا
اس نے بن بن کے مگر بات بنائی کیا کیا


عقل ہشیار تھی دھیرے سے دیا ہاتھ دبا
کیا کہوں ورنہ مرے دل میں سمائی کیا کیا


کیسے احسان کئے جائیں سخاوت کیسے
چھوڑ کر نقش گئے حاتم طائی کیا کیا


میں نہ ہابیل نہ یوسف نہ میں ٹیپو سلطاں
چاہتے ہیں مرے حق میں مرے بھائی کیا کیا


وہ تو بہتان لگانے کے لئے بیٹھے ہیں
دل میاں بھائی مرا دے گا صفائی کیا کیا


ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں جو کہا پہچانا
اس نے پھر مجھ سے نقیبؔ آنکھ چرائی کیا کیا